زخم سینہ بِسمل کیا، دکھائوں گا زخم اللہ کے آگے،
جس نظر نے جگر چیر دیا، کروں گا فریاد خُدا کے آگے۔
زلف رُخسار پہ لٹک رہے ہیں، کیا شب ہوگی،
تمہارے و ہماری ایک بات، سامنے گفتگو کب ہوگی؟
کیا ہے کرتے ہو غصہ غضب میری سدا کے آگے،
دھوپ ہے صحرا میں، ڈونڈھتے ہیں سایہ ابر کرم
سانون کی موسم ہے حری پن، نازک دل ہے درم برہم،
ہاتھ جوڑ کھڑا ہوں میں، سانون کی گهٹا کے آگے۔
زبان نہیں بل خصوص بے نظر ہوں، گر اُٹھا دیتے ہیں،
دیکھ کر رونا میرا، عنایت کر غم سے چھڑا دیتے ہیں،
ہزاروں دیکھے ہیں پتنگ پروان شمعٰ کے آگے۔
نہ شکوہ ہے نہ گذرا وقت یاد، یاد نہیں کچھ بھی،
بگڑا نصیب کبھی بنا، غیر آباد نہیں، گر شاد نہیں کچھ بھی،
ساقی رکھ دینا، آزاد شراب ساغر میخانے کے آگے۔