میت ہو گئی دفن میری، وہ بھی مقام پر آئے ہیں،
کیا تھا واعدہ اس نے اسی انجام پر آئے ہیں۔
ہوئی ہے نومیدی برحق، مگر جیت سمجها ہے،
قبر میں ہوں تو پھر کیا ہے، مگر وہ سلام پر آئے ہیں۔
مشغول تھی زندگی نشے کے مانند مہموز محبت میں،
صبح تو یاد نہیں منجهہ ہوتی ہوئی شام پر آئے ہیں۔
آزاد میں بھی خوابوں میں مگن ہوں اپنی مشکل ہے،
کیا ہے جس نے مجبوری سے اسی کلام پر آئے ہیں۔