ہوا تھا ناداں ایک احمق، سمجه نہ سکا محبت میری،
محبت میں اضافہ نہ کیا، بر عکس چھین لی صحبت میری۔
کرتا تھا شکوہ چپے چپے، دیتا تھا نۓ نۓ گلے غیبت،
گناہ پکڑ پکڑ کر تھک گیا، مگر سمجه نہ سکا اُلفت میری۔
اے رقع؎یب نہ جانے تمہیں مزہ آتا ہے، جب آنسو خون کے بہائوں،
گر ہے محشر تو ہے قیامت، قیامت کے دن ہوگی عدالت میری۔
آزاد مُفلس ہوں گر ہوں دولتمند تو سُن لے سمجه لے،
ہوتی کیوں نہیں درد سے شفاعت میری۔