میری تقدیر نہ جانے خدا کیسی لکھی ہے،
ہر دہر میں طبع عاجز بنا رکھی ہے۔
میں اے سنگدل بڑا پریشان ہو گیا ہوں،
کہ پریشانی میں پریشانی بعد ان کی بے رُخی ہے۔
ایک مدد سے ہم نے لہو کو خوراک کھا کر بڑھایا ہے،
کہ ایک لُقمہ لذت کیلئے دل میں طاقت بر رکھی ہے۔
ہاں غیر سے نہیں تم، اگر ہو تو بھلا پھر کیا،
خُدا کرے یہ نہ ہوگا، کچھ رقیب شکی شکی ہے۔
میں ہوں کہ دھراتا ہوں ڈر کا واعدہ تیرا،
کہتا ہوں کیا خبر یہ بات کچی ہے یا پھر پکی ہے۔
اے اِمن اعتبار دنیا کا کیا رکھیں کیا کریں،
ہر ایک عاشق کو زخم دینا سیکھی ہے