پوچھتے ہو تو کیا؟ اب بزم میں وہ مزا نہ رہا،
تیرے جانے کے بعد ہاتھ دل سے جدا نہ رہا۔
وہ ساون و سہانی راتیں وہ قمر کی چامندنی گہری،
وہ فضائیں بھی ادائیں بھی شام وہ صجا نہ رہا۔
کتنے میل و جول تھے اصول دل تھے پیار کے،
رقعبوں کے جوش و جنبش سے اصول ادا نہ رہا۔
باتیں تو ہزار ہیں لیکن بے کسی کی حالت نہ بدلی،
مفلسی و تنگد ستی میں کوئی اھِل وفا نہ رہا۔
سوز و درد سے آزاد اِمن چھڑا نہ سگها،
اس کی جفا سے نقصان ہوا اور نفا نہ رہا۔