ہم جو کچھ بھی اب کلرتے ہیں، ان سے کچھ کچھ ڈرتے ہیں،
جو بن سکے جو ہو نہ سکے، اس کام پہ آ کر مرتے ہیں۔
ان سے کہہ دو سانون آیا، رُت پھول گلابی کلیوں کی،
ہم اپنے ہر مایوس لمحے تازے توانے رکھتے ہیں۔
دھڑک دھڑک دل گردش ہے پیار کا، جل کھٹک رہا ہے،
بحر دریاء، تصور وصل، آرزوۓ فکر میں پھرتے ہیں۔
جو کام ہمارے کام نہ آئے، جس کام سے رُسوہ ذلت ہو،
وہ کام میرے صاحبِ ضمیر کیے کیوں کر کرتے ہیں۔
پڑھنے اور لکھنے میں دل لگتا تھا پھر اب تو نہیں،
ان کے خکوش رکھنے میں کچھ انگلش ریاضی پڑھتے ہیں۔
اے آزاد اِمن دنیا داری، دین کے برابر نہیں ہوتی،
ہر مسلم دل کہلاتے ہیں اور چاند کے اوپر چلتے ہیں۔